وزير خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے حماس کی پولیت بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ سے جمعرات کی رات ہوئي اس گفتگو میں فلسطین و غزہ کے تازہ حالات پر تبادلہ خیال کیا۔
ہنیہ نے اس بات چیت میں رہبر انقلاب اسلامی اور ایران کے صدر کو سلام کہا اور ایران کی قوم و حکومت کو نئے سال اور رمضان کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے غزہ میں تازہ حالات اور سیاسی صورت حال کی وضاحت کی۔
انہوں نے صیہونی حکومت کے قتل عام اور جنگي پسندی کے سمانے مزاحمت کے مجاہدوں کی استقامت اور جوش و جذبے پر زور دیتے ہوئے، انسانی صورت حال خاص طور پر شمالی غزہ میں بے حد بحرانی قرار دیا اور عالمی برادری کی طرف سے غزہ کے شہریوں کے لئے فوری امداد اور غزہ کے لوگوں اور خاص طور پر بچوں کو بھکمری کا شکار کرنے کی صیہونی حکومت کی کوششوں کے سد باب کی اپیل کی۔
حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ نے اسی طرح نسل کشی روکنے اور قیدیوں کے تبادلے کے لئے علاقائی سطح پر کی جانے والی کوششوں کی تازہ صورت حال بیان کی اور فلسطینیوں کے جائز حق پر مبنی حماس کی شرطوں کا ذکر کرتے ہوئے اس راہ میں صیہونی حکومت کی جانب سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کی وضاحت کی اور کہا کہ مذاکرات کی کسی بھی طرح سے ناکامی کی ساری ذمہ داری صیہونی حکومت کی ہوگي۔
اس ٹیلی فونی گفتگو میں ایران کے وزیر خارجہ نے کہا: دنیا اب یہ سمجھ سکتی ہے کہ نیتن یاہو ڈيڈ اینڈ تک پہنچ گئے ہيں اور اب وہ صرف باقی رہنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیا ہے فلسطین کی استقامت و عوامی مزاحمت کی وجہ سے صیہونی حکومت غزہ کی جنگ کے دلدل میں پھنس گئی ہے۔
امیر عبد اللہیان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر سخت تنقید کی اور غزہ اور غرب اردن میں بے گھر اور بے گناہ خواتین اور بچوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے ذمہ دار عالمی اداروں کے فوری اقدام اور کسی بھی محدودیت کے بغیر غزہ کے تمام علاقوں میں فوری امداد کی ترسیل کی ضرورت پر زور دیا۔
آپ کا تبصرہ